Review of the main motives of Amr Ibn Hisham’s anti-Islamic movement

Authors

  • Dr Hafiz Muhammad Sarfraz Ghani Muhammad Sarfraz Ghani The University of Faisalabad

Abstract

Amr Ibn Hisham was from the nobles of Quraysh. He belonged to the Banu Makhzum family and had great name and fame in all of Arabia for his generosity and hospitality of guests. He was also from the amongst those leders to whom people truned to for solving issues and dealing their affairs. He was also well-known the title of abul-Hakam (The father of wisdom). Due to his wisdom, at the age of 30 he become the member of Dar-un-Nadwa. He was so respected and honored that the day of his death was made a public day for mourning. But when Muhamamdﷺ was chosen as the Messenger of a Allah and sent to guide his people and the world from darkness to light. He became the flag bearer of disbelief and hatred towards Islam and Muslim. His hatred and enmity as to such an extent that the Muhammadﷺ gave him the title of “THE PHARAOH OF THIS UMMAH”. This title was given to him by the messenger of Allah ﷺ due to his hatred, enmity and cruelty towards the message of Islam and the Muslims. He was one of the Meccan polytheist pagan Qurayshi leaders known for his critical opposition towards the Islamic prophet Muhammad ﷺ and the early Muslim in Mecca.
Keywords: Enmity, Cruelty, Hatred
اللہ تبارک و تعالیٰ کے عظیم المرتبت اور اولو العزام پیغمبروں نے جب دعوتِ حق کی صدا بلند کی توان کو آغاز دعوت میں ہی فرعون، ہامان، شداد اور قارون جیسے سرکش ، ہٹ دھرم، متکبر، جابر، ظالم اور انا پرست سرداروں، وزیروں، مشیروں اور حکمرانوں کا سامنا کرنا پڑا، ان بے حس اور بے ضرور لوگوں نے کونسی ایسی تکلیف، دُکھ اور اذیت ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کے مقدس ترین انسانوں کو دو چار نہیں کیا؟ مگر پیغمبرانِ خدا نے نہ صرف ان کی بے اعتنائی اور طنز و تمسخر کا ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے سامنا کیا بلکہ ان کی عملی مخالفت بھی بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کی۔ اللہ رب العزت کے ان مقدس و مظہر انبیاء کرام علیہم السلام کے سلسلے کے آخری نبی جنابِ رول دو جہاںﷺ نے جب کلمۂ حق کی صدا ببانگِ دُھل بلند کی تو کفار مکہ نے ظلم و ستم کی شکل میں جو جواب دیا اس سے بنی نوعِ انسانیت کی تاریخ کے اوراق لرز اُٹھے۔ اپنے تو اپنے غیر بھی ظلم و سفارکیت کی داستانیں پڑھ کر حالتِ سکتہ میں چلے گئے۔ کم ہمت یا معمولی مقاصد والے لوگ انمراحل ہی سے گھبرا اٹھتے ہیں۔ مگر عظیم مقاصد لے کر اُٹھنے والی عالی ہمت ہستیاں ان کا مقابلہ مردانہ وار کرتی ہیں۔ داعی اعظمﷺ ان عالی ہمت ہستیوں می سب سے نمایاں ترین ہستی ہیں۔ داعی اعطمﷺ اور آپ کے جانثاروں کو کفار مکہ کے شریر سرداروں اور صاحبِ ثروت لوگوں کے ہاتھوں جن اذیتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ان کا مطالعہ آج بھی بڑے دل گردے والے لوگوں کو غمزدہ اور افسردہ کر دیتا ہے اور بڑے بڑے اورلواعلزم رجال دل چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ دعوتِ نبوی کے خفیہ تبلیغ والے ابتدائی تین سال نکال دیئے جائیں تو علانیہ تبلیغ کے صرف دوسرے سال ہی کفار مکہ اور معبودانِ باطل کے پیروکاروں نے ایسے حالات سے نبی کریمﷺ اور جانثارانِ مصطفیﷺ کو دو چار کر دیا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ قریشی سرداروں اورع ان کے شر پسند عناصر نے ہجرت حبشہ کے بعد باہمی مشاورت و اتفاق رائے سے رسولِ رحمتﷺ اور اصحابِ محمدﷺ کو تین سال کے لیے شعب ابی طالب میں محصور کر کے دم لیا۔
قریش مکہ کی ایذار سانیوں کا سلسلہ صرف شعب ابی طالب کی محصوری تک محدود نہ تھا بلکہ دکھوں، اذیتوں اور تکلیفوں کا یہ دور کبھی سفر طائف ، ہجرت مدینہ، بدر واحد اور خندق و احزاب کی شکل اختیار کر لیتا تو کبھی حدیبیہ کی فضاؤں کو سیدنا ابو جندلؓ کی سسکیوں سے غم ناک کر دیتا۔ مگر اللہ رب العزت کی مدد و نصرت اور حضورﷺ کی ثابت قدمی کی بدولت قریش مکہ کی ایذارسانیوں کا سلسلہ فتح مکہ کی عظیم گھڑی کے موقع پر نہ صرف رک گیا بلکہ اس درد ناک سفر کے رہبر و رہنما یا تو کفر کی حالت میں ہی نارجہنم کا ایندھن بن گئے یا پھر در مصطفےﷺ کے گدا بن کر آج دنیائے اسلام اور قوام عالم کی تاریخ کا ایک اہم باب بن چکے ہیں۔
مکی عہد رسالت میں دعوت اسلام کے خلاف تحریک برپا کرنے والوں میں سے ایک نمایاں نام عمرو ابن ہشام کا ہے۔؎ جو حقیقت میں مکی دور نبوت میں دعوتِ اسلام کا سب سے بڑا دشمن تحریک کا متحرک قائد تھا۔ وہ بنو مخزوم کا ایک با اثر رکن ہونے کے ساتھ ساتھ مکی جاہلی معاشرے میں بڑا اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ اس کا خاندان بھی مکی سیاست میں با اثر سیاسی گروپ تھا وہ خود بھی امتیازی خصوصیات کا حامل تھا۔ عقل مند، صائب الرائے، تیز و طرار، نت نئی منصوبہ بندی کا ماہر، عملی اقدام کے لیے ہمت و حوصلہ اور جوش و جذبہ رکھنے کے علاوہ سخت جان، متحرک شخصیت کا مالک ، اپنی اولوالعزی سے معمولی چیز کو بہت کچھ بنا دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کی ان خوبیوں کی بدولت ہی اسے ابو الحکم کہا جاتا تھا۔ ابن سعدؒ کے بقول ’’اس کا مدِ مقابل اور ہم پلہ بنوی عدی کے سییدنا عمر بن الخطابؓ کے سوا کوئی اور نہ تھا۔‘‘(۱)
اللہ رب العزت نے عمرو ابن ہشام کو جو اوصاف و خصائص عطا فرمائے تھے ان سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد ہر صاحبِ عقل اور ذی شعور شخص کے ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ایسا شخص تو دعوتِ اسلام کا جانثار سپاہی بن کر پیغام خداوندی کو عام کرنے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیتا مگر اس کا کردار اس کے برعکس تھا۔ مقالہ ہذا میں ان تمام عوامل اور محرکات کا ایک عمومی جائزہ لینے کی کاوش کی گئی ہے۔ جن کی بدولت عمرو ابن ہشام نہ صرف دعوتِ اسلام جیسی نعمت کبریٰ سے محروم رہا بلکہ زبان نبوت سے ’’فرعون امت‘‘ سے جیسے منحوس ترین لقب کا مستحق ٹھہرا۔
ابو جہل اس بات کی تلاش میں رہتا تھا کہ شہر میں کون دعوت محمدﷺ سے متاثر ہو رہا ہے اگر وہ مالی، معاشی، سماجی اعتبار سے کمزور ہوتا تو اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے سے گریز نہ کرتا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی مدد و حمایت اور پشت پناہی کرنے والا کوئی نہیں جو ذرا بہت حالت میں کاروباری قسم کے لوگ ہوتے ان پر دھنس جماتا، دھمکی دیتا کہ کاروبار غھپ کرا دوں گا، مال نہیں بیچنے دوں گا وغیرہ وغیرہ، جو صاحب ایمان ذرا با اثر ہو تا اس کی غیرت کو للکارتا، لعن طعن کرتا ار معبودانِ باطل کے نام پر ترکِ اسلام کی اپیل کرتا۔ دوسرے سردارانِ قریش پر اثر انداز ہو کر انہیں مجبور کرتا کہ دو رسول عربیﷺ کے خلاف متحدہ محاذ بنائیں۔ بقول ڈاکٹر نثار احمد ’’ابو جہل و فد بنا کر کئی مرتبہ جناب ابو طالب کے پاس جاتا اور ان کو ان کے بھتیجےﷺ کی دعوتی سرگرمیوں سے آگاہ کر کے ان کو داعی حق کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور کرتا۔ اس کی کوششوں سے بنو ہاشم کا معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کیا گیا اور اس کی تجویز پر ہی حضورﷺ کی شمع حیات گل کرنے کا شیطانی منصوبہ بھی بنایا گیا۔ یہ تمام مکارانہ چالیں اگرچہ کامیاب نہ ہو سکیں لیکن ابو جہل کے فرانہ عزائم، شیطانی دماغ اور فرعونی خناس کا اندازہ اس سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔‘‘(۲)
درج بالا حقائق سے آگاہی کے بعد درج ذیل عوامل سے پتہ چلتا ہے کہ عمرو ابن ہشام دعوتِ اسلام کی مخالفت میں نمایاں کردار کیوں ادا کر رہا تھا۔

Downloads

Published

2021-06-20

How to Cite

Muhammad Sarfraz Ghani, D. H. M. S. G. (2021). Review of the main motives of Amr Ibn Hisham’s anti-Islamic movement. Al Khadim Research Journal of Islamic Culture and Civilization, 2(1), 312–328. Retrieved from http://arjicc.com/index.php/arjicc/article/view/56